Loading...

  • 12 Dec, 2024

ہزاروں لوگ حمص سے نقل مکانی پر مجبور، حزب اختلاف کی پیش قدمی جاری

ہزاروں لوگ حمص سے نقل مکانی پر مجبور، حزب اختلاف کی پیش قدمی جاری

حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔

حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی حمص کے دروازے پر  

شام کے شہر حمص، جو ملک کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے، میں جاری جنگی کشیدگی نے ہزاروں افراد کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حزب اختلاف کے مسلح گروہ حیات تحریر الشام (HTS) کی قیادت میں باغیوں نے شہر کے مضافاتی علاقوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔  

جمعہ کے روز HTS نے اعلان کیا کہ ان کی افواج حمص کی دیواروں تک پہنچ چکی ہیں، جس کے بعد شہری بڑی تعداد میں مغربی ساحل کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں، جو اب بھی صدر بشار الاسد کی حکومت کے زیر کنٹرول ہے۔ ایک باغی کمانڈر نے ٹیلیگرام پیغام میں کہا، "ہماری افواج نے حمص کے نواح میں آخری گاؤں کو آزاد کرا لیا ہے، اور اب ہم شہر کی دیواروں پر ہیں۔"  

انسانی بحران کی شدت  

شام میں انسانی حقوق کے مبصر ادارے (SOHR) نے اطلاع دی ہے کہ اس کشیدگی کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ادارے کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتایا کہ زیادہ تر متاثرین ان علاقوں کی طرف جا رہے ہیں جو حکومت کے زیر کنٹرول ہیں۔  

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفان دوجاریک کے مطابق، 27 نومبر کے بعد سے ملک بھر میں 3 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ بے گھر افراد کی تعداد 15 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے، جو بحران کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔  

حمص کی اسٹریٹیجک اہمیت  

حمص دمشق اور ساحلی علاقوں کو ملانے والا ایک اہم راستہ ہے، اور باغیوں کی جانب سے اس پر قبضہ حکومت کی فوجی رسد اور طاقت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر حزب اختلاف حمص پر قابض ہو جاتی ہے تو یہ شامی حکومت کی طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔  

شامی حکومت نے باغیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے فضائی حملے تیز کر دیے ہیں، جن میں روسی فضائیہ بھی شامل ہے۔ رپورٹس کے مطابق، حمص گورنریٹ میں موجود اہم پل اور راستے نشانہ بنائے جا رہے ہیں تاکہ باغیوں کی رسائی کو محدود کیا جا سکے۔  

خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات  

اس تنازع نے علاقائی سلامتی کے خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔ اسرائیل نے شام اور لبنان کی سرحدوں پر فضائی حملے کیے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے حزب اللہ کے اسلحہ کے گوداموں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے تھے۔ حزب اللہ اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے والا ایک بڑا عسکری گروہ ہے۔  

حالات کا بدلتا منظر  

حمص، جو کبھی 2011 کی انقلابی تحریک کا مرکز تھا، اب تشدد اور بدامنی کی علامت بن چکا ہے۔ 2014 میں کئی سال کے محاصرے کے بعد یہ شہر حکومت کے زیر کنٹرول آیا تھا، لیکن اب باغیوں کی پیش قدمی ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔  

عالمی برادری اس صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ حمص میں ہونے والی پیش رفت نہ صرف شام بلکہ پورے خطے میں نئے تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔