امریکی سینیٹ نے غزہ تنازع کے دوران اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کی قرارداد مسترد کر دی
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
Loading...
ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ اگر وہ اس سال کے انتخابات میں کامیاب ہوئے تو ایران کے ساتھ دشمنیوں کے خاتمے کے لیے ایک معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
حکمت عملی میں تبدیلی
حالیہ بیان میں، ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ آنے والے انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ ایران کے ساتھ ایک معاہدے کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ایران کے حوالے سے ان کی خارجہ پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، جو امریکی تعلقات میں ایک اہم تنازعہ رہا ہے۔ ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ایک معاہدہ کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق، "ہمیں ایک معاہدہ کرنا ہوگا کیونکہ نتائج ناقابل برداشت ہیں۔ ہمیں معاہدہ کرنا ہوگا۔" تاہم، انہوں نے اس ممکنہ معاہدے کی تفصیلات کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔
ٹرمپ کے بیان کا پس منظر
ٹرمپ کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب انہوں نے 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ یہ معاہدہ اوباما انتظامیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے تعاون سے کیا گیا تھا، جس کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیتوں کو محدود کرنا اور اس کے بدلے ایران پر سے پابندیاں ہٹانا تھا۔ امریکہ کے اس معاہدے سے علیحدگی کے بعد، ایران نے یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دی، جو کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صلاحیت فراہم کر سکتی ہے، جس سے بین الاقوامی ماہرین اور پالیسی سازوں میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ نئے معاہدے پر غور کرنے کی خواہش ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ نتائج کے ادراک کی عکاسی کرتی ہے۔ ایران کے ارد گرد کا جغرافیائی سیاسی منظرنامہ پیچیدہ ہے، جہاں مختلف عوامل اس کی جوہری خواہشات اور علاقائی رویے کو متاثر کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ بیان سفارتی سطح پر دوبارہ انگیج کرنے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے، اگرچہ انہوں نے مذاکرات کے لیے کوئی واضح حکمت عملی یا فریم ورک پیش نہیں کیا۔
ممکنہ معاہدے کے اثرات
اگر ٹرمپ منتخب ہو کر ایران کے ساتھ نئے معاہدے کی طرف بڑھتے ہیں تو یہ امریکی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات پر اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ ایک کامیاب معاہدہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کر سکتا ہے اور فوجی تنازعے کے خطرات کو کم کر سکتا ہے۔ تاہم، ایران کے ساتھ معاہدے تک پہنچنا ایک چیلنج ہوگا، کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی بداعتمادی اور مختلف مقاصد موجود ہیں۔
ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے، جس سے خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ کسی بھی نئے مذاکرات میں ایران کے اقدامات، خاص طور پر جوہری ٹیکنالوجی میں پیش رفت اور علاقائی تنازعات میں اس کی شمولیت کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا۔
مستقبل کا لائحہ عمل
جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، ایران کے حوالے سے ٹرمپ کے بیانات ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کا ایک اہم موضوع بن سکتے ہیں۔ ووٹرز یہ جاننے میں دلچسپی رکھیں گے کہ وہ بین الاقوامی سفارتکاری کے پیچیدہ مسائل کو کیسے حل کریں گے، خاص طور پر ایران جیسے دیرینہ مخالف ملک کے ساتھ۔ ایران کے ساتھ نئے معاہدے کی پیشکش سفارتی مذاکرات اور جوہری عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کے لیے سخت اقدامات کے درمیان توازن قائم کرنے کے حوالے سے اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔
اختتامیہ
ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدے کی تجویز ان کی خارجہ پالیسی کی حکمت عملی میں ممکنہ تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، جو بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ جیسے جیسے سیاسی منظرنامہ بدل رہا ہے، اس موقف کے اثرات کو ان کے حامی اور ناقدین دونوں کی جانب سے قریب سے مانیٹر کیا جائے گا۔ آئندہ انتخابات کا نتیجہ امریکہ-ایران تعلقات اور مشرق وسطیٰ کے وسیع تر استحکام کے مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔
Editor
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب جو بائیڈن امریکی دفتر میں اپنے آخری مہینوں میں جا رہے ہیں، جانشین ڈونلڈ ٹرمپ روس کے لیے زیادہ سازگار سمجھے جاتے ہیں۔