شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
غزہ پر اسرائیلی بمباری اور ایران و حزب اللہ کی جانب سے متوقع جوابی حملوں کی تیاری کے دوران مزید ہتھیاروں کی منتقلی کی منظوری دی گئی ہے۔
امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کے لیے ایک اہم ہتھیاروں کا پیکج منظور کیا ہے جس کی مالیت 20 ارب ڈالر ہے۔ اس پیکج میں جدید لڑاکا طیارے، ٹینک کے گولے، اور فضاء سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں۔ یہ فیصلہ منگل کو امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا جب غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں اور علاقے میں انسانی بحران کے بارے میں سنجیدہ خدشات کو جنم دیا۔ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کی سیکیورٹی کے حوالے سے اپنے عزم پر قائم ہے اور حکام اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادی کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط رکھنا ضروری ہے۔
بڑھتی ہوئی کشیدگی اور متوقع ردعمل
ہتھیاروں کی فروخت اس وقت خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ یہ اس وقت ہو رہی ہے جب خطے میں تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر حماس اور حزب اللہ کے اہم رہنماؤں کے قتل کے بعد۔ ان واقعات نے ایران اور حزب اللہ کی جانب سے ممکنہ جوابی حملوں کے خدشات کو جنم دیا ہے جو کہ ایک وسیع علاقائی تنازعہ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ صدر جو بائیڈن نے امید ظاہر کی ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ جوابی کارروائی کے خطرے کو کم کر سکتا ہے، اور غزہ میں تشدد کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
جیسے جیسے تنازعہ جاری ہے، اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں تقریباً 40,000 فلسطینیوں کی موت واقع ہو چکی ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ پورے محلوں کی تباہی اور انسانی امداد کی ناکہ بندی نے وسیع پیمانے پر مذمت کی ہے اور امریکہ سے اسرائیل کی فوجی حمایت پر نظر ثانی کرنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
امریکی فوجی امداد پر تنقید
بائیڈن انتظامیہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی سے امریکہ غزہ میں جاری تباہی کا شریک کار بن جاتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ انتظامیہ نے جنگ بندی پر زور دینے کے لیے اپنی فوجی حمایت کا استعمال کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے، جس پر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ حماس کو غیر مسلح کیے بغیر یہ ممکن نہیں۔ امریکہ پر قانون سازوں اور عوام کی جانب سے فوجی منتقلی کو روکنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، خاص طور پر غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی بڑی تعداد میں شہری ہلاکتوں کے پیش نظر۔
ان خدشات کے باوجود، امریکہ نے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری جاری رکھی ہے، جس میں حال ہی میں 2,000 پاؤنڈ وزنی بم کی کھیپ بھی شامل ہے، جو غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے منسلک ہے۔ اس سے ان قوانین کی پاسداری کے حوالے سے سوالات پیدا ہو رہے ہیں جن کے تحت ایسے یونٹس کو فوجی حمایت معطل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوں۔
سفارتی کوششیں اور آگے کا راستہ
کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش میں، اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکہ خطے میں "درجہ حرارت کم کرنے" کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی سمیت جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ امریکہ جنگ بندی کے لیے سرگرم کوششیں کر رہا ہے جسے وہ مزید کشیدگی کو روکنے اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
جیسے جیسے صورتحال ترقی کر رہی ہے، بائیڈن انتظامیہ کو اسرائیل کی طویل مدتی حمایت اور غزہ میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران کے درمیان توازن قائم کرنے کا مشکل کام درپیش ہے۔ ان سفارتی کوششوں کا نتیجہ امریکہ اسرائیل تعلقات اور مشرق وسطیٰ کے وسیع تر استحکام کے مستقبل کا تعین کرنے میں اہم ہوگا۔
آخر میں، اسرائیل کو 20 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی حالیہ منظوری امریکہ کی خطے میں خارجہ پالیسی کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتی ہے، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازعے کے تناظر میں۔ جیسے جیسے جنگ بندی کے مطالبات بلند ہو رہے ہیں، بائیڈن انتظامیہ کو ایک اتحادی کی حمایت اور فلسطینی عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے درمیان نازک توازن کو قائم کرنا ہوگا۔
BMM - MBA
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔