Loading...

  • 19 Sep, 2024

امریکہ یوکرین کو روس کے اندر حملے کی اجازت دینے پر غور کر رہا ہے، جس سے پیوٹن کی سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

امریکہ یوکرین کو روس کے اندر حملے کی اجازت دینے پر غور کر رہا ہے، جس سے پیوٹن کی سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

اگر واشنگٹن ہتھیاروں کی اجازت کو وسعت دیتا ہے، تو نیٹو جنگ میں براہِ راست شامل ہو جائے گا، روسی صدر نے خبردار کیا۔

امریکی پالیسی میں ممکنہ تبدیلی

حالیہ پیش رفت کے مطابق، امریکہ یوکرین کو امریکی ساختہ ہتھیاروں کے استعمال پر اپنے موقف کو ایڈجسٹ کرنے پر غور کر رہا ہے، جو کہ روسی سرحدوں کے اندر گہرائی میں حملے کرنے کی صلاحیت دے سکتا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے اشارہ دیا ہے کہ یوکرین کے ہتھیاروں کے جغرافیائی حدود ہٹانے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔ یہ ممکنہ پالیسی تبدیلی یوکرین کی مسلسل اپیلوں کے بعد سامنے آئی ہے جس میں وہ اپنی سرحدوں کے باہر ہدف بنانے کی صلاحیتوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

بین الاقوامی سفارتی صورتحال

سفارتی محاذ پر، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی کے ساتھ کیئو کے دورے کے دوران یوکرین کی درخواستوں پر توجہ دیتے ہوئے ممکنہ پالیسی تبدیلی کا اشارہ دیا۔ صدر بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر کے درمیان اس معاملے پر مزید بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران، ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین مائیکل مککال نے قیاس آرائی کی کہ امریکہ جلد ہی یوکرین کو یہ اطلاع دے سکتا ہے کہ وہ سرحد پار آپریشن کر سکتا ہے، جو کہ امریکی پالیسی میں ایک اہم تبدیلی ہوگی۔

پیوٹن کا ردعمل اور نیٹو کی تشویشات

نیٹو ممالک کی جانب سے یوکرین کو روس کے اندر حملے کی اجازت دینے کے امکان نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی سخت ردعمل کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسی کارروائیاں نیٹو کی براہِ راست مداخلت کے مترادف ہوں گی، جس سے جنگ کی نوعیت بنیادی طور پر تبدیل ہو جائے گی۔ پیوٹن کے بیانات ان بڑھتے ہوئے تنازعات اور مزید شدت کے امکان کو ظاہر کرتے ہیں، کیونکہ مغربی ممالک یوکرین کو فوجی انٹیلیجنس اور ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جوہری خدشات اور حکمت عملی

جنگ کے دوران جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات مسلسل موجود رہے ہیں۔ تاہم، سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکان کو کم کر دیا ہے اور پیوٹن کی دھمکیوں کو عام دھیما بازی قرار دیا ہے۔ برنس نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا ہے اور روس نے اسے پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔ جنرل بین ہوجز نے مزید وضاحت کی کہ موجودہ محاذوں پر روس کے لیے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی حکمت عملی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے روس کو سفارتی اور اقتصادی طور پر تنہا کر دیا جائے گا۔

روس اور اتحادیوں کی فوجی ترقیات

اس تنازع میں روس نے شمالی کوریا، ایران اور چین جیسے اتحادیوں سے فوجی مدد حاصل کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، ایران نے روس کو کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل فراہم کیے ہیں، جبکہ چین نے براہِ راست فوجی ٹیکنالوجی فراہم کی ہے، جو کہ پہلے دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجیز کی فروخت سے ایک اہم تبدیلی ہے۔ ان اتحادوں نے روس کی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کیا ہے، یہاں تک کہ مغربی ممالک یوکرین کو حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

نتیجہ: ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامہ

جیسے جیسے یوکرین میں جنگ جاری ہے، امریکی پالیسی میں ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے ممکنہ تبدیلی ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ عالمی برادری مسلسل الرٹ پر ہے، جبکہ سفارتی اور فوجی حکمت عملیوں میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ عالمی طاقتوں کی شمولیت اور ان کے بدلتے اتحاد جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، جس سے اس مسئلے کے حل کی راہ چیلنجوں سے بھرپور ہے۔ دنیا ان پیش رفتوں پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ یہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے گہرے اثرات رکھتے ہیں۔

Syed Haider

Syed Haider

BMM - MBA