امریکی سینیٹ نے غزہ تنازع کے دوران اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کی قرارداد مسترد کر دی
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
Loading...
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب جو بائیڈن امریکی دفتر میں اپنے آخری مہینوں میں جا رہے ہیں، جانشین ڈونلڈ ٹرمپ روس کے لیے زیادہ سازگار سمجھے جاتے ہیں۔
امریکی پالیسی میں اہم تبدیلی
جو بائیڈن کے اس اقدام کو امریکی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ متعدد معتبر ذرائع، جیسے رائٹرز، ایسوسی ایٹڈ پریس، اور نیویارک ٹائمز نے اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔ رپورٹوں کے مطابق، یوکرین کو امریکی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے روس کے اندر گہرائی تک حملے کرنے کی اجازت مل گئی ہے، جس سے بائیڈن کی پالیسیوں میں سختی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
یوکرین کی تیاریاں
یوکرینی صدر وولوڈومیر زیلنسکی نے حالیہ خطاب میں عندیہ دیا کہ "یہ میزائل خود اپنی زبان میں بولیں گے۔" انہوں نے واضح کیا کہ میڈیا رپورٹس اجازت کی نشاندہی کر رہی ہیں، لیکن ان حملوں کو عوامی سطح پر پہلے سے اعلان نہیں کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق، یوکرین امریکی طویل فاصلے کے میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے جلد بڑے حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
عالمی ردعمل
اس فیصلے پر عالمی رہنماؤں کا مختلف ردعمل سامنے آیا ہے۔ پولینڈ کے وزیر خارجہ رادوسلاو سکارسکی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ امریکہ کا یہ اقدام روسی جارحیت کا بھرپور جواب ہے۔ دوسری جانب، روسی حکام نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ روسی پارلیمنٹ کے رکن ولادیمیر زھابروف نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو یہ اجازت دینا عالمی جنگ کے خطرات کو بڑھا سکتا ہے اور روس فوری ردعمل دے گا۔
فیصلے کے اثرات
بائیڈن انتظامیہ کا یہ فیصلہ یوکرین کی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ یوکرین کو آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹمز (ATACMS) کی اجازت دینا، جو 190 میل تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں، روس کے خلاف یوکرین کی حکمت عملی میں گہرائی پیدا کرے گا۔ اس کے علاوہ، اطلاعات ہیں کہ برطانیہ اور فرانس بھی اپنے طویل فاصلے کے میزائل یوکرین کو فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
فیصلے کا پس منظر
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب روسی افواج کی مدد کے لیے شمالی کوریا کے فوجیوں کی تعیناتی نے واشنگٹن اور کیف میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بائیڈن، جو اب تک روس کے خلاف محتاط حکمت عملی اپنائے ہوئے تھے، نے ان بدلتے حالات اور ممکنہ طور پر کم حمایتی اگلی امریکی انتظامیہ کے پیش نظر یہ جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔
آگے کا منظرنامہ
جو بائیڈن کے عہدے سے رخصت ہونے کے قریب، یوکرین کے لیے امریکی حمایت کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جو امداد کے حوالے سے محتاط رویہ رکھتے ہیں، بائیڈن کے اس فیصلے کو منسوخ کر سکتے ہیں۔ حالانکہ ٹرمپ نے جنگ کے جلد خاتمے کا وعدہ کیا ہے، مگر ان کے منصوبوں کی تفصیلات ابھی واضح نہیں ہیں۔
نتیجہ
بائیڈن کا یوکرین کو روس پر حملے کے لیے امریکی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دینا روس-یوکرین تنازع میں ایک نیا موڑ ہے۔ اس فیصلے کے علاقائی استحکام اور امریکی خارجہ پالیسی پر اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر کی نظریں اب یوکرین کے آئندہ اقدامات اور اس فیصلے کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔
Editor
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید
حزب اللہ کو مرکزی بیروت میں بڑا نقصان، اسرائیلی حملے میں محمد عفیف کی شہادت