Loading...

  • 30 Dec, 2024

کیا اسرائیلی جنگ چاہتے ہیں؟ حزب اللہ کے ساتھ تنازعے پر قوم کی منقسم رائے

کیا اسرائیلی جنگ چاہتے ہیں؟ حزب اللہ کے ساتھ تنازعے پر قوم کی منقسم رائے

مشرق وسطیٰ کے اس ملک کے زیادہ تر شہری حزب اللہ کے ساتھ تنازعے کے فوجی حل کے حامی ہیں، اور کچھ تو "لبنان کے جنوب کو دوبارہ آباد کرنے" کی امید بھی رکھتے ہیں۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی اور فوجی کارروائیاں  

اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ حزب اللہ ایک شیعہ سیاسی اور عسکری گروہ ہے جو ایران سے منسلک ہے۔ پیر سے اسرائیلی دفاعی فورسز (IDF) نے حزب اللہ کے ٹھکانوں پر 800 سے زائد حملے کیے ہیں۔ یہ کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب بیروت کے علاقے ضاحیہ میں ایک حملے کے نتیجے میں حزب اللہ کی ایلیٹ ریڈوان فورس کے سربراہ ابراہیم عقیل سمیت دیگر سینیئر کمانڈرز ہلاک ہو گئے۔ مزید برآں، مواصلاتی آلات میں نصب دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے حزب اللہ کے کئی آپریٹیوز ہلاک ہوئے۔ حالانکہ اسرائیل نے ان حملوں کی باضابطہ طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی، لیکن لبنان نے ان حملوں کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے اور حزب اللہ نے بدلے کی دھمکی دی ہے۔

عوامی رائے اور جنگ کی تیاری  

حزب اللہ کی جوابی کارروائی کے خطرے نے اسرائیل میں خاص طور پر شمالی سرحد کے قریب کمیونٹیز میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔ رہائشیوں کو بمباری سے بچنے کے لیے پناہ گاہوں کے قریب رہنے کا کہا گیا ہے، جبکہ اسرائیلی دفاعی فورسز کے چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی نے ممکنہ مکمل جنگ کی تیاری کے لیے متعدد منصوبے منظور کیے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، جو دائیں بازو سے منسلک چینل 14 نے کیا، 71% اسرائیلی شہری لبنان میں فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ 18% اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایک اور سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 65% اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ ان کا ملک اس تنازعے میں کامیاب ہو گا۔

جنگی کارروائی کی حمایت  

یسرائیل کیلر، "فائٹنگ فار دی نارتھ" نامی گروپ کے نمائندے، ان افراد میں شامل ہیں جو حزب اللہ کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔ کیلر کا کہنا ہے کہ صرف ایک جنگ ہی موجودہ صورتحال کو بدل سکتی ہے، جہاں اسرائیلی شہریوں کو حزب اللہ کے راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے صرف چند سیکنڈ ملتے ہیں۔ ان کی تنظیم اسرائیل کی غزہ میں زمینی کارروائی کے بعد بنائی گئی، جو حزب اللہ کے راکٹ حملوں سے متاثرہ 62,000 اسرائیلیوں کے انخلا کے بعد وجود میں آئی۔

فوجی حکمت عملی اور چیلنجز  

اسرائیل مسلسل حزب اللہ کے حملوں کا جواب دیتا رہا ہے اور لبنان کے جنوبی علاقوں اور بیروت میں اس کے لانچ سائٹس اور فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہا ہے۔ تاہم، کیلر اور ان کے گروپ کا ماننا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔ وہ زیادہ جارحانہ طریقہ کار کی وکالت کرتے ہیں، جس میں حزب اللہ کو لیتانی دریا سے آگے دھکیلنا اور اس کے ہتھیاروں کو ختم کرنا شامل ہے، تاکہ اسرائیل پر اس کے خطرے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ حزب اللہ کے پاس 200,000 سے زیادہ میزائل اور ایک تربیت یافتہ فوجی طاقت ہے، لیکن کیلر کو اسرائیل کی فوجی صلاحیتوں پر مکمل بھروسہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی عزم کے ساتھ اسرائیل کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

سیاسی اور اسٹریٹجک مسائل  

وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو حزب اللہ کو اسلحہ جمع کرنے کی اجازت دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگرچہ کیلر نیتن یاہو کے بڑے ناقد نہیں ہیں، لیکن وہ حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تاکہ تنازعے کا ایک حتمی حل تلاش کیا جا سکے۔ اس میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا اور جنوبی لبنان میں ممکنہ طور پر یہودی بستیوں کے ساتھ ایک بفر زون قائم کرنا شامل ہے۔

تنازعے کی قیمت  

اگرچہ کچھ اسرائیلی ماہرین نے لبنان کے ساتھ مکمل جنگ کے خطرات سے خبردار کیا ہے، لیکن کیلر اور ان کے حمایتی اسرائیل کی سلامتی کو بین الاقوامی تنہائی اور اقتصادی نقصانات پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل کے وزیر خزانہ بتزلیل سموترچ کی مالی مہارت ملک کو ایسے تنازعے کے اقتصادی چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نکال سکتی ہے۔ ان کے نزدیک حزب اللہ کا خاتمہ بقاء کا مسئلہ ہے، جو مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے، جیسے 7 اکتوبر کو اسرائیل کو پیش آئے۔

تاریخی تناظر  

اسرائیل اور لبنان کے درمیان پہلے بھی دو جنگیں ہو چکی ہیں۔ پہلی لبنان جنگ 1982 میں شروع ہوئی اور 1984 میں ختم ہوئی، جس کے بعد اسرائیلی افواج نے 2000 میں جنوبی لبنان سے واپسی اختیار کی۔ دوسری لبنان جنگ 2006 میں اس وقت شروع ہوئی جب حزب اللہ نے 10 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا۔ جیسے جیسے کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، یہ سوال باقی ہے کہ کیا اسرائیل اپنے دیرینہ تنازعے کا فوجی حل تلاش کرے گا یا نہیں۔