Loading...

  • 22 Nov, 2024

تشدد میں اضافہ: اسرائیل نے مغربی کنارے میں فوجی کارروائیاں تیز کر دیں

تشدد میں اضافہ: اسرائیل نے مغربی کنارے میں فوجی کارروائیاں تیز کر دیں

مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں چھاپوں کے دوران کئی فلسطینی جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

صورتحال کا جائزہ

اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے پر حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے اور یہ کارروائیاں مسلسل دوسرے دن بھی جاری ہیں۔ ان حملوں میں کم از کم 18 فلسطینیوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ تشدد کے واقعات پر عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق مرنے والوں میں جنین گورنری کے آٹھ، طولکرم کے چھ اور طوباس کے چار افراد شامل ہیں، جبکہ دیگر کئی افراد ان جاری چھاپوں میں زخمی ہوئے ہیں۔

فوجی کارروائیوں کی تفصیلات

اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں بشمول جنین، طولکرم اور طوباس کے قریب واقع فراح پناہ گزین کیمپ میں بڑے پیمانے پر چھاپے مارنے کے لیے اضافی فوجی دستے طلب کیے ہیں۔ اس کارروائی کو علاقے میں دو دہائیوں کی سب سے بڑی فوجی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے، اور آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ وہ ان "مسلح دہشت گردوں" کو نشانہ بنا رہے ہیں جو سیکیورٹی فورسز کے لیے خطرہ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان کارروائیوں کے دوران کم از کم 20 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں، اور توقع کی جا رہی ہے کہ چھاپے جاری رہنے کے ساتھ یہ تعداد مزید بڑھ جائے گی۔

طولکرم کے نور شمس پناہ گزین کیمپ میں فوج نے پانچ فلسطینی جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں طولکرم بٹالین کے کمانڈر محمد جابر المعروف ابو شجاع بھی شامل ہیں۔ آئی ڈی ایف کا دعویٰ ہے کہ جابر اسرائیلیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔ فلسطینی اسلامی جہاد (پی آئی جے) نے جابر اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے اقدام کو اسرائیلی فوج کے خلاف "ایک بہادرانہ جنگ" قرار دیا ہے۔

تباہی اور انسانی ہمدردی کے مسائل

فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں نہ صرف جانی نقصان ہوا ہے بلکہ شہری بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ وفا کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے نور شمس کیمپ میں کئی گھروں کو نذر آتش کیا اور بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ اقوام متحدہ نے ان کارروائیوں کے انسانی ہمدردی کے اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فوجی کارروائیوں کے فوری خاتمے اور اسرائیل سے بین الاقوامی انسانی قانون کی پابندی کی اپیل کی ہے۔

عالمی ردعمل اور انسانی حقوق کے تحفظات

تشدد میں اضافے پر بین الاقوامی برادری نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فوجی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے "خوفناک حد تک مہلک قوت کا استعمال" قرار دیا ہے، اور خبردار کیا ہے کہ ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں جبری بے دخلی اور اہم بنیادی ڈھانچے کی تباہی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایمنسٹی کی سینئر ڈائریکٹر، ایرکا گیویرا روزاس نے ان ہتھکنڈوں کو فلسطینیوں کے خلاف ایک وسیع پیمانے پر نسل پرستی کا حصہ قرار دیا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے "دہشت گردی کے ڈھانچے" سے نمٹنے کے لیے کچھ محلوں سے فلسطینی باشندوں کو عارضی طور پر نکالنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس نقطہ نظر نے فلسطینی حقوق کے گروپوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ یہ طریقہ کار غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے دوران استعمال کیے گئے طریقوں کی عکاسی کرتا ہے۔

وسیع تر تناظر

مغربی کنارے میں حالیہ فوجی کارروائیاں 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں تنازعہ کے پھوٹنے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران ہو رہی ہیں۔ اس وقت سے، اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور آباد کاروں کے تشدد کی وجہ سے مغربی کنارے میں 640 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (او سی ایچ اے) نے تشدد میں نمایاں اضافے کی دستاویز کی ہے، جس کے دوران فوجی کارروائیوں میں کئی فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔

جیسے جیسے صورتحال آگے بڑھ رہی ہے، مغربی کنارے کے باشندے شدید خوف اور اضطراب کا شکار ہیں۔ الجزیرہ کی ندا ابراہیم نے رپورٹ کیا ہے کہ موجودہ فوجی کارروائیوں کا پیمانہ بے مثال ہے، اور متعدد پناہ گزین کیمپوں کو بیک وقت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بہت سے رہائشیوں نے اپنے گھروں کی مرمت کا کام روک دیا ہے کیونکہ مسلسل حملوں کی وجہ سے وہ مزید حملوں کے لیے غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔

نتیجہ

مغربی کنارے میں جاری فوجی کارروائیاں اسرائیل فلسطین تنازعہ میں ایک نازک موڑ کی نمائندگی کرتی ہیں، جن کے سنگین اثرات شہریوں کی حفاظت اور علاقائی استحکام پر مرتب ہو رہے ہیں۔ جیسے جیسے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، علاقے میں انسانی بحران بڑھ رہا ہے، جس سے اس طویل عرصے سے جاری تنازعے کے حل کی فوری ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔