مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات: یوشوا بینجیو کی وارننگ
ٹیکنالوجی کے انسانوں سے زیادہ ذہین ہونے اور کنٹرول سنبھالنے کے خدشات
Loading...
محققین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت مستقبل میں حقیقت پسندانہ انسان نما روبوٹس کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
بائیو ہائبرڈ روبوٹکس میں ایک سنگ میل
روبوٹکس میں ایک حیرت انگیز پیش رفت کے طور پر، جاپانی سائنسدانوں نے کامیابی کے ساتھ ایک ایسا طریقہ تیار کیا ہے جس میں خود کو ٹھیک کرنے والی زندہ جلد کو ایک روبوٹ کے چہرے پر لگا کر اسے مسکرانے کے قابل بنایا گیا ہے۔ یہ نیا تحقیقی منصوبہ یونیورسٹی آف ٹوکیو کے بائیو ہائبرڈ سسٹمز لیبارٹری میں پروفیسر شوجی تاکیوچی کی قیادت میں کیا گیا، اور یہ زیادہ حقیقت پسندانہ انسان نما روبوٹس بنانے کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
تحقیقی ٹیم نے ایک ایسی جلدی بافت تیار کی جو انسانی چہرے کی طرح نظر آتی ہے، اور اسے ایک بیرونی میکانکی آلے پر لگایا جسے ایکچویٹر کہا جاتا ہے۔ خصوصی "اینکرز" کی مدد سے اس جلد کو جوڑا گیا جو انسانی جلد میں پائے جانے والے ریشے دار بینڈز کی طرح ہیں۔ یہ طریقہ جلد کو بغیر پھٹے یا سکڑے آسانی سے حرکت کرنے دیتا ہے، جو کہ پہلے کے تجربات میں انسانی خلیات سے بنائی گئی جلد کو ٹھوس سطحوں پر لگانے میں ایک عام مسئلہ تھا۔
مسکراہٹ کے پیچھے سائنس
ایک مظاہری ویڈیو میں، محققین نے زندہ جلد کو مسکراہٹ میں ڈھالنے کی صلاحیت دکھائی، جس سے جلد کی لچک اور مضبوطی واضح ہوتی ہے۔ حالانکہ موجودہ پروٹو ٹائپ ایک کارٹون کی شکل جیسا نظر آتا ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی کی ممکنہ صلاحیتیں بے حد اہم ہیں۔ پروفیسر تاکیوچی نے خوش امیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ہماری تیار کردہ جلد کا مقصد انسانی جلد کی مکمل حیاتیاتی خصوصیات کی نقل کرنا ہے، جن میں چہرے کے عضلات، پسینے کے غدود اور خون کی نالیاں شامل ہیں۔"
یہ مکمل خصوصیات وہ روبوٹس بنا سکتی ہیں جو نہ صرف زیادہ حقیقت پسندانہ نظر آئیں بلکہ انسانوں کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے بات چیت بھی کر سکیں، جس سے جذباتی اظہار اور گفتگو میں بہتری آئے گی۔ ایسی ٹیکنالوجی کے ممکنہ استعمال میں صحت کی دیکھ بھال سے لے کر جذباتی مدد فراہم کرنے والے ساتھی روبوٹس تک شامل ہیں۔
مستقبل کے امکانات اور چیلنجز
اگرچہ نتائج امید افزا ہیں، پروفیسر تاکیوچی نے خبردار کیا کہ مکمل حقیقت پسندانہ روبوٹک جلد بنانے میں ابھی وقت لگے گا۔ خاص طور پر جلد کے ٹیکسچر، رنگ اور حیاتیاتی عناصر کے انضمام میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "ہمارا مقصد زیادہ حقیقت پسندانہ روبوٹس بنانا ہے، لیکن ہمارا بنیادی ہدف ان کی کارکردگی اور تعامل کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔"
یونیورسٹی آف ساؤتھمپٹن کے بائیو ہائبرڈ فیوچرز پروجیکٹ کے سربراہ رافیل میسترے نے بھی اس پر زور دیا کہ جلد اور روبوٹک سطحوں کے درمیان تعامل کا عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اور ابتدائی نمونے ممکنہ طور پر مکمل انسان نما شکلوں کی بجائے سادہ بائیو ہائبرڈ روبوٹ ہوں گے۔
اخلاقی پہلو اور سماجی اثرات
بائیو ہائبرڈ روبوٹکس کے شعبے میں ترقی کے ساتھ، اس ٹیکنالوجی کے اخلاقی پہلو بھی اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ محققین نے انسانی-روبوٹ تعاملات اور بائیو روبوٹس کو انسانی جسموں میں شامل کرنے کے حوالے سے قوانین اور اخلاقی رہنما اصولوں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پروفیسر تاکیوچی نے ذمہ دارانہ ترقی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، "جبکہ حقیقت پسندانہ روبوٹس بنانے کے بے شمار فوائد ہیں، ہمیں ان کے اثرات پر غور کرنا ہوگا اور ان کی ترقی اور استعمال میں شفافیت برقرار رکھنی ہوگی۔" میسترے نے اس ٹیکنالوجی کے سماجی اثرات پر بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ عدم مساوات میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں یا ماحولیات کو متاثر کر سکتی ہیں۔
نتیجہ
زندہ جلد کے ساتھ مسکراتے روبوٹ کی تخلیق حقیقت پسندانہ روبوٹس کی تلاش میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اگرچہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن جذبات کا اظہار کرنے والے اور انسانوں کے ساتھ زیادہ قدرتی طریقے سے بات چیت کرنے والے روبوٹس بنانے کی صلاحیت نہایت دلچسپ اور پیچیدہ ہے۔ جیسے جیسے محققین بائیو ہائبرڈ روبوٹکس کے امکانات کا جائزہ لیتے ہیں، ضروری ہے کہ اخلاقی پہلوؤں اور سماجی اثرات پر بھی غور کیا جائے تاکہ روبوٹکس کا مستقبل ہماری اقدار اور توقعات کے مطابق ہو۔
ٹیکنالوجی کے انسانوں سے زیادہ ذہین ہونے اور کنٹرول سنبھالنے کے خدشات
خلائی پروگراموں میں ممالک کا مقابلہ انسانیت کو نقصان پہنچائے گا، راکیش شرما کا ماننا ہے۔
یہ تاریخ میں پہلی بار ہوگا کہ کسی نجی مشن میں خلائی واک کی جائے گی۔ لیکن کیا امریکہ اسپیس ایکس کی بلند پروازیوں کی کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتا؟