اسرائیلی فوج نے ایرانی طیارے کو شام کی فضائی حدود سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا
شبہ تھا کہ طیارہ حزب اللہ کے لیے اسلحہ لے جا رہا تھا
Loading...
روس اور شام کے جنگی طیاروں کی ادلب پر بمباری، شمال مغرب میں باغیوں کی غیر متوقع کارروائی پانچویں دن بھی جاری۔
شمال مغربی شام میں کشیدگی میں اضافہ
شمال مغربی شام میں تنازعے میں شدت آگئی ہے جہاں حزب اختلاف کے جنگجو شمالی شہر حماء کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل، انہوں نے حال ہی میں حلب کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی اس کارروائی کے بعد حکومت اور اس کے روسی اتحادیوں کی جانب سے شدید جوابی حملے کیے جا رہے ہیں۔
حزب اختلاف کی کامیابیاں اور حکومتی ردعمل
حزب اختلاف کے گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) نے اس خطے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن میں کئی اہم مقامات اور دو ملین سے زائد آبادی والے شہر حلب پر قبضہ شامل ہے۔ اس پیش قدمی کے بعد صدر بشار الاسد کی حکومت نے حماء میں اپنی پوزیشنز مضبوط کرتے ہوئے حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔ خاص طور پر ادلب اور حلب میں حکومت کی کارروائیاں شدت اختیار کر گئی ہیں۔
شامی فوج نے اپنے دستوں کو بھاری ہتھیاروں اور راکٹ لانچرز فراہم کیے ہیں تاکہ باغیوں کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ اس دوران اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب گیر پیڈرسن نے فوری سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ جاری لڑائی سے شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے اور خطے میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔
اقتدار کی جنگ اور بدلتی صورت حال
شام کی خانہ جنگی، جو 2011 میں عوامی مظاہروں سے شروع ہوئی، وقت کے ساتھ مختلف موڑ اختیار کرتی رہی ہے۔ 2020 سے محاذوں کی حالت تقریباً جمود کا شکار رہی، لیکن حیات تحریر الشام کی حالیہ پیش قدمی نے طاقت کے توازن کو بدل دیا ہے۔ خاص طور پر خاناسر جیسے اہم سپلائی روٹ اور حلب کے فوجی اڈوں پر قبضے نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
صدر بشار الاسد نے اپنے بیان میں "دہشت گردوں" کے خلاف حکومت کی زمین اور استحکام برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم، ترکی-شام سرحد سے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ حماء کے قریب حالات نہایت غیر مستحکم ہیں اور باغی اپنی پوزیشنز برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شہریوں کی حالت زار اور انسانی بحران
جاری لڑائی سے انسانی بحران میں مزید شدت آ گئی ہے۔ برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری کے مطابق روسی اور شامی افواج کے حملوں میں کم از کم 25 شہری، جن میں بچے بھی شامل ہیں، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ وائٹ ہیلمٹس نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، جو اس تنازعے میں معصوم شہریوں کی قیمت پر زور دیتے ہیں۔
جنگ کے کئی سالوں نے شام کے انسانی بحران کو پہلے ہی بدترین بنا دیا ہے، اور حالیہ لڑائی نے مزید ہزاروں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ کارکن رزان صفور، جن کا خاندان حلب میں ہے، حکومت کی جانب سے ممکنہ جوابی کارروائیوں پر تشویش ظاہر کر رہی ہیں، خاص طور پر ماضی میں استعمال ہونے والے "زمین جلا دینے" کے طریقوں کے تناظر میں۔
علاقائی اور بین الاقوامی ردعمل
شام کی بدلتی صورتحال پر علاقائی طاقتوں نے صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی دمشق آمد اور اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ساتھ یو اے ای کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کی حمایت اس کی واضح مثال ہیں۔
اس کے برعکس، حلب کے کچھ رہائشی محتاط امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ حکومت کے برسوں پر محیط کنٹرول کے بعد ممکنہ تبدیلی کی امید بھی پیدا ہو رہی ہے۔
اختتامیہ
شام کی حالیہ صورتحال اس طویل خانہ جنگی میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف مقامی شہریوں پر پڑ رہے ہیں بلکہ خطے میں استحکام کے لیے بھی خطرہ بن رہے ہیں۔ عالمی برادری اس تنازعے کو قریب سے دیکھ رہی ہے اور سیاسی حل کی ضرورت پر زور دے رہی ہے۔
Editor
شبہ تھا کہ طیارہ حزب اللہ کے لیے اسلحہ لے جا رہا تھا
ملک کے صدر نے کہا ہے کہ ان کی افواج اور اتحادی جہادی پیش قدمی کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شام کی فوج کا کہنا ہے کہ شمال مغربی علاقے میں حملوں میں درجنوں فوجی ہلاک ہوئے، اور وہ جوابی کارروائی کے لیے دوبارہ منظم ہو رہی ہے۔