Loading...

  • 04 Dec, 2024

شامی باغیوں کی سینٹرل حلب میں پیش قدمی، فوجی دستے پسپا

شامی باغیوں کی سینٹرل حلب میں پیش قدمی، فوجی دستے پسپا

شام کی فوج کا کہنا ہے کہ شمال مغربی علاقے میں حملوں میں درجنوں فوجی ہلاک ہوئے، اور وہ جوابی کارروائی کے لیے دوبارہ منظم ہو رہی ہے۔

فوجی کنٹرول میں غیر متوقع تبدیلی  

شامی حکومت کو ایک غیر متوقع جھٹکا لگا ہے کیونکہ باغیوں نے شمال مغربی شہر حلب میں شدید حملہ کر کے حکومتی فورسز کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ شامی فوج نے تصدیق کی ہے کہ باغیوں کے حملوں میں درجنوں فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ حملے "مسلح دہشت گرد تنظیموں" کے ذریعے کیے گئے، جنہوں نے حلب اور ملحقہ صوبے ادلب میں کئی دنوں سے شدید لڑائی جاری رکھی ہوئی ہے۔

باغیوں کی پیش قدمی اور فوج کا ردعمل
 
شامی فوج نے کہا کہ باغی، جن کی قیادت زیادہ تر حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کر رہی ہے، نے کئی محاذوں سے وسیع حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں تقریباً 100 کلومیٹر طویل علاقے میں شدید لڑائی ہوئی۔ باغی حلب کے کئی علاقوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، لیکن فوج کے مطابق فضائی بمباری کے باعث باغی شہر میں مستقل ٹھکانے بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ فوج نے باغیوں کو نکال کر حلب اور اس کے ارد گرد ریاستی کنٹرول بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب شامی فوج نے ایچ ٹی ایس کے حلب میں داخلے کو تسلیم کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق باغی نہ صرف حلب بلکہ حمص کی جانب بھی پیش قدمی کر رہے ہیں۔

شہری نقصانات اور فضائی حملے  

جنگ کی شدت میں اضافے کے ساتھ، انسانی بحران بھی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ شامی سرکاری ٹی وی نے اطلاع دی کہ روسی فضائی مدد شامی فوج کو فراہم کی جا رہی ہے، جس سے لڑائی میں مزید شدت آ گئی ہے۔ شامی سول ڈیفنس نے بتایا کہ شامی اور روسی فضائی حملوں نے ادلب کے رہائشی علاقوں، ایک پیٹرول پمپ، اور ایک اسکول کو نشانہ بنایا، جس سے کئی شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔

حکومت نے حلب ایئرپورٹ کو بند کر دیا ہے اور تمام پروازیں منسوخ کر دی ہیں، جس سے شہر مزید الگ تھلگ ہو گیا ہے۔ باغیوں نے ادلب میں ابو الظہور ایئربیس اور حلب کو دارالحکومت دمشق سے جوڑنے والی ایک اہم شاہراہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔

جنگی منظرنامے میں تبدیلی  

حلب کے شہریوں نے بتایا کہ باغی حکومتی فوجیوں کی تلاش میں مصروف ہیں، اور گرفتار کیے گئے کچھ فوجیوں کو بہتر سلوک کے بعد محفوظ مقام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ باغیوں کی حالیہ پیش قدمی نے کچھ بے گھر شہریوں کو اپنے گھروں کو لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے، جو تنازع کی پیچیدہ صورتحال کو اجاگر کرتا ہے۔

یہ لڑائی 2020 کے بعد شمال مغربی شام میں سب سے شدید ہے، جب روس اور ترکی کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ ترکی، جو ماضی میں مختلف باغی گروہوں کی حمایت کرتا رہا ہے، اس علاقے میں فوجی موجودگی رکھتا ہے، جبکہ امریکہ مشرقی شام میں داعش کے خلاف کرد فورسز کی حمایت پر مرکوز ہے۔

آنے والے حالات
 
ایچ ٹی ایس کی تیز پیش قدمی نے شامی حکومت کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اتحادیوں، خاص طور پر حزب اللہ اور ایران، کی مشرق وسطیٰ کے دیگر تنازعات میں مصروفیت نے اس صورتحال کو جنم دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا شامی حکومت اور اس کے اتحادی حلب کو ایچ ٹی ایس کے قبضے میں رہنے دیں گے یا جوابی حملہ کر کے اپنی کھوئی ہوئی زمین واپس حاصل کریں گے۔

جنگ کی صورتحال غیر یقینی ہے، اور آئندہ دنوں میں مزید شدت کا خدشہ ہے۔