Loading...

  • 04 Oct, 2024

اسرائیلی حراست میں فلسطینی بچوں کی جدوجہد

اسرائیلی حراست میں فلسطینی بچوں کی جدوجہد

تعذیب، بیماری اور بھوک کا سامنا: اسرائیلی جیلوں میں رہا ہونے والے فلسطینی کم عمر بچوں کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد بدسلوکی عام ہوگئی ہے۔

تعارف

اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بچوں کی حالتِ زار ایک سنگین انسانی مسئلہ بن چکی ہے جو 7 اکتوبر کو شروع ہونے والے تنازع کے بعد مزید شدید ہو گئی ہے۔ مختلف انسانی حقوق کے گروپوں اور ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بدسلوکی، نظرانداز کیے جانے اور سخت حالاتِ زندگی کی بات کی گئی ہے، جو ان نوجوان قیدیوں کو درپیش ہیں۔ یہ مضمون اسرائیلی حراست میں فلسطینی کم عمر بچوں کے خوفناک تجربات پر روشنی ڈالتا ہے اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کے وسیع تر اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

چھنی ہوئی بچپن

حسین کی آزمائش

حسین، ایک 16 سالہ فلسطینی لڑکا، ہیبرون کے قریب اسرائیلی فورسز کے ساتھ جھڑپ کے بعد دس ماہ تک قید میں رہا۔ گولی لگنے کے بعد حسین کو بے ہوشی کی حالت میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد جب اس نے ہوش سنبھالا تو وہ اسپتال میں تھا، اور کچھ دنوں بعد اسے اوفر جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس کی کہانی بہت سی کہانیوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اکتوبر میں تنازع کے شدت اختیار کرنے کے بعد سے سینکڑوں فلسطینی بچوں کو اسی طرح کے حالات میں قید کیا گیا ہے۔

اس کی قید کے نتائج انتہائی سنگین ہیں۔ کبھی ایک متحرک نوجوان جو کھیلوں کا شوقین تھا، اب حسین بیساکھیوں پر انحصار کرتا ہے اور اپنے زخمی جوڑ کی مرمت کے لیے سرجری کا منتظر ہے۔ اس کے جسمانی زخموں کے ساتھ ساتھ، اس کے تجربات کی نفسیاتی تکالیف بھی شامل ہیں، جن کے باعث وہ اپنے معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے کی جدوجہد کر رہا ہے اور اکثر ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے۔

نظامی نظراندازی اور بدسلوکی

طبی اور غذائی کمی

اسرائیلی قید میں فلسطینی بچوں کو متعدد بدسلوکیوں کا سامنا ہے، جن میں طبی غفلت بھی شامل ہے۔ حسین اور دیگر بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں ناکافی طبی امداد ملتی ہے اور انہیں اکثر ناکافی کھانا دیا جاتا ہے، جس کے باعث وہ مسلسل بھوک کا شکار رہتے ہیں۔ صاف پانی تک رسائی محدود ہوتی ہے، جس کے باعث قیدیوں کو اکثر باتھ روم کے پانی پینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

ان سہولیات میں حالات ناقابلِ برداشت ہیں، قیدیوں کو اکثر سردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نیند سے محروم کیا جاتا ہے اور بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ان بدسلوکیوں کا دستاویزی ثبوت پیش کیا ہے اور فوری بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

خاندانوں پر اثرات

عمر کا دکھ

قیدی بچوں کے خاندانوں کے لیے یہ تکلیف بہت زیادہ ہے۔ حسین کے والد، عمر، اپنے بیٹے کی قید کا جذباتی اثر بیان کرتے ہیں، جسے اکتوبر میں تنازع کے بعد کی تباہی نے مزید بڑھا دیا ہے۔ عارضی جنگ بندی کے دوران اس کی رہائی کی امید کے باوجود، حسین ابھی تک قید ہے، ایک ایسے تنازع کا شکار جو فلسطینی بچوں سے ان کے بچپن اور مستقبل کو چھینتا جا رہا ہے۔

ایک وسیع بحران

احمد ابو نعیم کا تجربہ

احمد ابو نعیم، ایک اور فلسطینی نوجوان، 15 سال کی عمر سے متعدد بار قید میں رہا ہے۔ اس کے تجربات اسرائیلی جیلوں میں حالات کی بگڑتی ہوئی شدت کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں پر بھیڑ، ناقص صفائی اور بدسلوکی عام ہیں۔ احمد جیسے بچے، جنہیں مارا پیٹا گیا اور آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑا، ایسے حالات کا سامنا کرتے ہیں جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

انتظامی حراست کی مشق، جس میں بچوں کو خفیہ ثبوت کی بنیاد پر بغیر مقدمہ کے حراست میں رکھا جاتا ہے، نے مزید پیچیدہ قانونی اور انسانی حقوق کی صورتحال پیدا کر دی ہے۔

نتیجہ

حسین، احمد اور بے شمار دیگر فلسطینی بچوں کی کہانیاں ایک سنگین انسانی بحران کو اجاگر کرتی ہیں جس کے لیے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو ان بچوں کے حقوق کی حمایت کرنی چاہیے، تاکہ انہیں وہ تحفظ اور عزت ملے جس کے وہ حقدار ہیں۔ جب یہ بچے اپنے تجربات کو بہادری سے بیان کرتے ہیں، تو ان کی آوازیں انصاف اور ایک ایسے مستقبل کے لیے مطالبہ کرتی ہیں جو غیر قانونی حراست کی زنجیروں سے آزاد ہو۔



Syed Haider

Syed Haider

BMM - MBA