Loading...

  • 23 Oct, 2024

عرب امریکی ووٹرز میں ٹرمپ کی مقبولیت، ہیرس کو پیچھے چھوڑ دیا، سروے رپورٹ

عرب امریکی ووٹرز میں ٹرمپ کی مقبولیت، ہیرس کو پیچھے چھوڑ دیا، سروے رپورٹ

نیا سروے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کے لیے ایک انتباہ ہے کہ غزہ میں جاری جنگ ان کے ایک اہم ووٹنگ بلاک کی حمایت کھو رہی ہے۔

انتخابات کے قریب، حمایت میں تبدیلی

امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخابات سے قبل ایک نئے سروے نے انکشاف کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ عرب امریکی ووٹرز میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں، جس سے نائب صدر کملا ہیرس کے لیے ایک ممکنہ چیلنج پیدا ہو رہا ہے۔ عرب نیوز اور یوگوو کی جانب سے جاری کردہ اس سروے میں ٹرمپ 45 فیصد اور ہیرس 43 فیصد ووٹوں کے ساتھ سبقت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ یہ رجحان ڈیموکریٹس کے لیے تشویشناک ہے، خاص طور پر غزہ میں جاری تنازع کے تناظر میں، جو اس اہم ووٹنگ بلاک کی حمایت پر اثرانداز ہو رہا ہے۔

عرب امریکی ووٹرز کے اہم مسائل

سروے نے عرب امریکی ووٹرز کے اہم مسائل کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے 29 فیصد نے اسرائیل-فلسطین تنازع کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا، جب کہ 21 فیصد نے اقتصادی مسائل اور 13 فیصد نے نسل پرستی اور امتیاز کو اہم قرار دیا۔ مزید برآں، جواب دہندگان نے اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے معاملے میں ٹرمپ کو ترجیح دی، جس میں 39 فیصد نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو بہتر طریقے سے حل کریں گے، جبکہ 33 فیصد نے ہیرس کی حمایت کی۔

حالانکہ ٹرمپ کی برتری نظر آ رہی ہے، لیکن انہیں اسرائیل کی موجودہ حکومت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ سمجھا جاتا ہے، جو کہ عرب امریکی کمیونٹی کے ساتھ ایک پیچیدہ تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ سروے کے نتائج 500 عرب امریکیوں کے نمونے پر مبنی ہیں، جس میں غلطی کا مارجن پلس یا مائنس 5.93 فیصد ہے۔

انتخابات سے قبل ڈیموکریٹس کے لیے نتائج

یہ رجحان ڈیموکریٹس کے لیے اہم نتائج کا باعث بن رہا ہے، خاص طور پر صدر جو بائیڈن کی غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی حمایت ہیرس کے انتخابی امکانات کو متاثر کر رہی ہے۔ عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے ایک سابقہ سروے میں ٹرمپ اور ہیرس کے درمیان 42 اور 41 فیصد کے فرق کے ساتھ قریبی مقابلہ ظاہر کیا گیا تھا۔ خاص طور پر، عرب امریکیوں میں ہیرس کی حمایت بائیڈن کی 2020 کی حمایت سے 18 پوائنٹس کم ہے۔

مشی گن ایک اہم جنگی میدان کے طور پر سامنے آ رہا ہے، جہاں عرب امریکیوں کی بڑی تعداد بستی ہے، خاص طور پر ڈیربورن جیسے شہروں میں، جو امریکہ کا پہلا عرب اکثریتی شہر ہے۔ یہ ریاست انتخابات کے نتائج کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی، جسے 2020 میں بائیڈن نے تقریباً 150,000 ووٹوں کے فرق سے جیتا تھا، جبکہ 2016 میں ٹرمپ نے تقریباً 11,000 ووٹوں کی معمولی برتری حاصل کی تھی۔

عرب امریکی ووٹرز کو ٹرمپ کی جانب سے خصوصی پیغام

مسلم اور عرب امریکی ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے، ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں ہیرس پر تنقید کی ہے، خاص طور پر ریپبلکن لِز چینی کے ساتھ ان کی مشترکہ تقریبات پر، جو مشی گن، پنسلوانیا، اور وسکونسن جیسے کلیدی ریاستوں میں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ اگر ہیرس دوبارہ منتخب ہوئیں تو مشرق وسطیٰ کو دہائیوں تک بدامنی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا، "اگر کملا کو مزید چار سال ملے، تو مشرق وسطیٰ اگلے چار دہائیوں تک آگ میں جلتا رہے گا۔"

اگرچہ ٹرمپ نے مسلم کمیونٹی سے روابط بنائے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی اسرائیل نواز پالیسیوں پر بھی فخر کرتے ہیں اور خود کو اسرائیل کے لیے سب سے بڑا حمایتی قرار دیتے ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق اسرائیل کا وجود ان کی دوبارہ انتخابی کامیابی پر منحصر ہے، جو عرب امریکی ووٹرز کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کے پیچیدہ نتائج کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔

نتیجہ

انتخابات کے قریب آتے ہی عرب امریکی ووٹرز میں تبدیلی ڈیموکریٹس کے لیے ایک بڑا چیلنج بن رہی ہے۔ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مسائل کی پیچیدہ صورتحال کے باعث، ہیرس کو اس اہم ووٹنگ بلاک کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے مؤثر انداز میں ان مسائل کو حل کرنا ہوگا۔