شام میں کیا ہوا؟
دارالحکومت پر قبضہ: ایک بڑی پیش رفت
Loading...
ترکی نے کردستان ورکرز پارٹی کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جسے اس نے انقرہ کے قریب ٹی یو ایس اے ایس (ترک ایرو اسپیس انڈسٹریز) کمپنی پر حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
جوابی فضائی حملے میں کرد ٹھکانے نشانہ بنے
ترکی نے عراق اور شام میں کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے ٹھکانوں پر جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ حملے اس وقت کیے گئے جب ترک سرکاری دفاعی کمپنی ٹی یو ایس اے ایس پر ایک دہشت گرد حملہ ہوا، جس میں پانچ افراد جاں بحق اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ ترک وزارت دفاع کے مطابق 47 اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا اور تباہ کیا گیا، تاہم مقامات کی مکمل تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ وزارت نے یہ بھی واضح کیا کہ شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اپنائی گئی تھیں۔
حملے کا پس منظر
ترک وزیر دفاع یاسر گولر نے بتایا کہ ترکی نے شمالی عراق میں 29 اور شمالی شام میں 18 مقامات پر حملے کیے ہیں۔ یہ حملے کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے، جسے ترکی نے ٹی یو ایس اے ایس پر حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ پی کے کے کو ترکی اور اس کے مغربی اتحادی دہشت گرد تنظیم تسلیم کرتے ہیں، اور یہ تنظیم جنوب مشرقی ترکی میں خودمختاری کے لیے طویل عرصے سے جنگ لڑ رہی ہے۔
دوسری جانب، شام کی ڈیموکریٹک فورسز (SDF) جو امریکہ کی حمایت یافتہ ہیں اور داعش کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک فضائی حملوں کے نتیجے میں شام کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں 12 شہری جاں بحق ہوئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں، اور 25 افراد زخمی ہوئے۔ ایس ڈی ایف میں کرد عوامی دفاعی یونٹس (YPG) اور عرب جنگجو شامل ہیں، اور یہ شام کے شمالی حصوں پر قابض ہیں، جن میں تیل سے مالا مال علاقے بھی شامل ہیں۔
حملہ آوروں کی شناخت
ترک وزیر داخلہ علی یرلکایا نے ٹی یو ایس اے ایس حملے کے بعد ایک حملہ آور کی شناخت بطور "روجر" کی، جو ایک پی کے کے دہشت گرد کے کوڈ نام کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ایک خاتون کا نام "مائن سیوجن الچچیک" بھی سامنے آیا۔ وزیر دفاع یاسر گولر نے اعلان کیا کہ وہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ان کا پیچھا کریں گے۔
انہوں نے استنبول میں ایک دفاعی صنعت کی تقریب کے دوران کہا کہ ترکی "دہشت گرد تنظیم کے کسی بھی رکن کو فرار ہونے کا موقع نہیں دے گا۔" ابھی تک پی کے کے نے ٹی یو ایس اے ایس پر حملے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سکیورٹی کے سخت اقدامات
حملے کے بعد ٹی یو ایس اے ایس کے ہیڈکوارٹر میں سکیورٹی کے اقدامات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے، جہاں گاڑیوں اور افراد کی مکمل جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ حملے میں جاں بحق افراد کی نماز جنازہ جمعرات کو ادا کی گئی جبکہ استنبول کے اہم ہوائی اڈوں پر بھی حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب ترکی کی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی (MHP) کے رہنما دولت باہچلی نے مشورہ دیا تھا کہ اگر پی کے کے کا رہنما عبداللہ اوجلان تشدد ترک کر دے تو اسے رہائی دی جا سکتی ہے۔
علاقائی ردعمل اور جاری تنازعہ
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس حملے کی مذمت کی اور اسے "ایک سنگین دہشت گرد حملہ" قرار دیا۔ عراق میں ترکی کے سفارت خانے نے بھی حملے کی مذمت کی اور ترکی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
Editor
اپوزیشن نے شام کو اسد کے اقتدار سے آزاد قرار دے دیا، صدر بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبریں گردش میں۔
حیات تحریر الشام کی قیادت میں باغی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی ’دیواروں پر‘ ہیں۔