Loading...

  • 16 Oct, 2024

امریکہ نے اسرائیلی ٹی وی پر آیت اللہ سیستانی کو نشانہ بنانے کی مذمت کی

امریکہ نے اسرائیلی ٹی وی پر آیت اللہ سیستانی کو نشانہ بنانے کی مذمت کی

واشنگٹن کے بغداد میں سفیر نے اسرائیلی نشریات کی مذمت کی، جس میں شیعہ رہنما آیت اللہ سیستانی کو قتل کا نشانہ بنا کر پیش کیا گیا۔

سفارتی برہمی اور اسرائیلی نشریات پر ردعمل

امریکہ نے اسرائیل کے چینل 14 پر نشر ہونے والی نشریات کی شدید مذمت کی ہے جس میں شیعہ مسلک کے بڑے رہنما، آیت اللہ علی سیستانی کو ایک ممکنہ ہدف کے طور پر دکھایا گیا۔ اس نشریات میں آیت اللہ سیستانی کی تصویر کو سرخ ہدف کے نشان میں دکھایا گیا، جس کے ساتھ حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم اور حماس کے رہنما یحییٰ سنوار جیسے افراد کو بھی شامل کیا گیا، جنہیں اسرائیل کے مخالفین کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس نشریات نے مشرق وسطیٰ میں بالخصوص شیعہ حلقوں میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔

عراق میں امریکی سفیر، الینا رومانوسکی نے سوشل میڈیا پر اس نشریات کی مذمت کی اور آیت اللہ سیستانی کو خطے میں امن کے فروغ کے لیے ایک اہم مذہبی رہنما قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ "آیت اللہ سیستانی عالمی برادری میں ایک معروف اور قابل احترام مذہبی رہنما ہیں۔ وہ ایک پرامن خطے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔" انہوں نے واضح طور پر آیت اللہ سیستانی کو کسی بھی طرح نشانہ بنانے کی مذمت کی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ خطے میں امن کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

آیت اللہ سیستانی کی حیثیت اور عوامی تاثر

آیت اللہ علی سیستانی 94 سال کی عمر میں شیعہ مسلک کے سب سے بڑے مذہبی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ وہ عراق کے شہر نجف میں رہائش پذیر ہیں اور عوامی طور پر کم ہی نظر آتے ہیں۔ ان کی آخری عوامی ملاقات 2021 میں پوپ فرانسس کے ساتھ ہوئی تھی۔ اگرچہ وہ عوام میں کم دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کے بیانات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے پیروکار اکثر ان کی ہدایات کو سیاسی معاملات میں رہنمائی کے طور پر لیتے ہیں۔

2014 میں، آیت اللہ سیستانی نے ایک فتویٰ جاری کیا جس میں عراقیوں سے داعش کے خلاف متحد ہونے کا کہا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں رضاکارانہ ملیشیا گروپ تشکیل دیے گئے جو داعش کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ یہ گروہ، جن میں سے کچھ ایران سے وابستہ ہیں، اب عراق میں ایک اتحاد کے تحت کام کر رہے ہیں، جو حالیہ دنوں میں اسرائیل پر ڈرون حملے کر رہے ہیں تاکہ فلسطینیوں اور حزب اللہ کی حمایت کی جا سکے۔

عراقی حکومت کا ردعمل

عراقی حکومت نے بھی اسرائیلی نشریات کی مذمت کرتے ہوئے اسے "ایک سنگین خلاف ورزی" قرار دیا، جو خطے میں تشدد اور کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے۔ عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے اس نشریات کو مسلمانوں کے لیے ایک توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی شخصیات کے احترام کی ضرورت ہے۔ عراقی صدر نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ نفرت انگیز اشتعال انگیزیوں کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کریں اور فلسطین اور لبنان کے خلاف جارحیت کو روکنے کی کوششوں کی حمایت کریں۔

آیت اللہ سیستانی کے دفتر نے حالیہ دنوں میں لبنان میں بڑھتی ہوئی تشدد کی مذمت کی تھی اور اسرائیل کی "وحشیانہ جارحیت" کی مذمت کرتے ہوئے لبنانی عوام کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔

نتیجہ

اسرائیلی نشریات کے خلاف ردعمل نے مشرق وسطیٰ میں مذہبی اور سیاسی شخصیات کی حساسیت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے آیت اللہ سیستانی کے خلاف کسی بھی قسم کے خطرے کی مذمت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکہ خطے میں استحکام اور امن کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایسے نازک اوقات میں قوموں اور معاشروں کے درمیان مکالمے اور احترام کی کتنی اہمیت ہے۔