Loading...

  • 08 Sep, 2024

امریکی-سعودی پٹرول ڈالر معاہدہ 50 سال بعد ختم ہو گیا

امریکی-سعودی پٹرول ڈالر معاہدہ 50 سال بعد ختم ہو گیا

امریکی ڈالر کے بدلے خام تیل کی برآمدات کے تبادلے کا معاہدہ، جو 1974 میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان طے پایا تھا، پچاس سال بعد ختم ہو گیا ہے۔ اس معاہدے نے واشنگٹن کو تیل کی مستقل فراہمی اور قرضوں کی مارکیٹ فراہم کی جبکہ سعودی عرب کو فوجی امداد اور ساز و سامان ملا۔

معاہدہ 8 جون 1974 کو طے پایا تھا اور 9 جون 2024 کو ختم ہو گیا۔ یہ معاہدہ امریکہ کے تیل کے بحران کے بعد ہوا تھا، جس دوران امریکہ نے سونے کے معیار سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اس کے بعد عالمی معیشت میں عدم استحکام پیدا ہوا تھا۔

 پٹرول ڈالر

پٹرول ڈالر اصل میں امریکی ڈالر ہیں جو خام تیل کی برآمدات کے بدلے دیے جاتے ہیں۔ یہ نظام 1972 میں قائم کیا گیا تھا جب امریکہ نے سونے کے معیار کو ختم کر دیا تھا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے تیل برآمد کرنے والے ممالک نے زیادہ سے زیادہ پٹرول ڈالر کمائے اور انہیں امریکی ڈالرز میں قبول کیا کیونکہ عالمی تجارت اور مالیات میں ڈالر کا غلبہ تھا۔

پٹرول ڈالر نظام نے امریکی ڈالر کو عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر مستحکم کیا، جس نے امریکی معیشت کو متعدد فوائد فراہم کیے۔ ڈالر کے استعمال نے امریکی صارفین کے لئے درآمدات کو سستا بنا دیا، جبکہ امریکی خزانے کے بانڈز میں سرمایہ کاری کے رجحان نے کم سود کی شرحوں اور مضبوط بانڈ مارکیٹ کو جنم دیا۔

 معاہدے کی تفصیلات

1974 میں سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے کے تحت امریکہ نے سعودی عرب سے تیل خریدا اور بدلے میں فوجی امداد اور ساز و سامان فراہم کیا۔ سعودی عرب نے اپنی پٹرول ڈالر آمدنی کو امریکہ میں واپس بھیج کر اس کی معیشت کو مالی معاونت فراہم کی۔

 اب کیا ہو گا؟

سعودی عرب اب تیل کو یوآن، یورو، روبل اور ین میں بھی فروخت کر سکتا ہے اور ڈیجیٹل کرنسیوں جیسے بٹ کوائن میں لین دین پر غور کر رہا ہے۔ طویل مدت میں، یہ عالمی مالیاتی نظام میں متبادل کرنسیوں کے استعمال کے رجحان کو تیز کر سکتا ہے۔

 عالمی مالیاتی نظام پر اثرات

معاہدے کے خاتمے سے عالمی مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اگر تیل کی قیمت ڈالر کے علاوہ کسی اور کرنسی میں طے کی گئی، تو اس سے ڈالر کی عالمی مانگ کم ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں، امریکہ میں افراط زر، سود کی شرحوں میں اضافہ اور بانڈ مارکیٹ کی کمزوری ہو سکتی ہے۔

یہ تبدیلی عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے توازن میں بھی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، امریکی ڈالر کی غلبے کی حیثیت اب یقینی نہیں رہی۔ اس تبدیلی سے سعودی عرب اور دیگر اقتصادی طاقتوں جیسے چین اور BRICS ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط ہو سکتے ہیں۔

 ماہرین کی رائے

جیمز ای تھورن، ویلنگٹن-آلٹوس فنانشل انک کے ماہر نے ایکس پر لکھا کہ یہ ترقی امریکی ڈالر کی منظم کمی اور اپنے قومی قرضے کی دوبارہ فنانسنگ کی صلاحیت کو بڑھانے کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تبدیلی کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں اور یہ ممالک کے درمیان جغرافیائی اور مالیاتی صف بندی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

یہ معاہدہ کے اختتام کا اعلان ایک نیا دور شروع کرنے کا اشارہ ہے جس میں عالمی مالیاتی نظام میں امریکی ڈالر کی طاقت کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

Syed Haider

Syed Haider

BMM - MBA