Loading...

  • 19 Sep, 2024

بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین مچھلی کی سفارت کاری میں ناکامی

بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین مچھلی کی سفارت کاری میں ناکامی

مغربی بنگال کے باشندوں کو اپنے پسندیدہ مچھلی ہلشا کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے جب کہ ریاست کا سب سے بڑا تہوار، درگا پوجا، اکتوبر میں منایا جا رہا ہے۔

جب مغربی بنگال کے لاکھوں لوگ اکتوبر میں درگا پوجا کی بڑی تقریب کی تیاری کر رہے ہیں، تو انہیں اپنی پسندیدہ مچھلی ہلشا کی بڑی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ صورتحال بنگلہ دیش کی جانب سے بھارت کو ہلشا کی ترسیل کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور طویل مدتی پابندی کو مزید سخت کرنے کے حالیہ فیصلے کے باعث پیدا ہوئی ہے۔

بنگلہ دیش کی نئی برآمدی پابندی

دنیا میں ہلشا کی سب سے بڑی پیداوار کرنے والے ملک بنگلہ دیش نے یہ قدم اٹھایا ہے تاکہ اس قیمتی مچھلی کو اپنے صارفین کے لیے دستیاب رکھا جا سکے۔ بنگلہ دیش کی وزارت ماہی گیری اور لائیو اسٹاک کی مشیر فریدہ اختر نے کہا، "بنگلہ دیش سے اب بھی بڑی مقدار میں مچھلی بھارت جا رہی ہے، ہم اس بار ہلشا کو سرحد پار نہیں جانے دیں گے۔" یہ نئی کوشش ڈھاکہ میں ایک نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سامنے آئی ہے، جس نے پچھلی حکومت کی پالیسی سے انحراف کیا ہے۔

تاریخی طور پر، سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے "ہلشا سفارتکاری" کی حکمت عملی اپنائی تھی، جس کے تحت وہ درگا پوجا کے موقع پر بھارت کو ہلشا برآمد کرنے کی اجازت دیتی تھیں تاکہ نیک نیتی کا اظہار کیا جا سکے۔ اس میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو ہلشا بھیجنا اور 2017 میں بھارتی صدر پرنب مکھرجی کو 30 کلو ہلشا تحفے میں دینا شامل تھا تاکہ طویل مدتی پانی کے تنازع کو حل کیا جا سکے۔

سیاسی پس منظر اور اثرات

بنگلہ دیش میں حالیہ سیاسی ہلچل، جس کے نتیجے میں 5 اگست کو حسینہ کو بڑے پیمانے پر احتجاجات کے بعد اقتدار سے ہٹا دیا گیا، نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مختلف ممالک میں پناہ کی درخواستوں نے بھی سفارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا کی ہے۔ ڈھاکہ کی نئی عبوری حکومت کو اب اندرونی ضروریات اور بین الاقوامی تعلقات کے درمیان توازن قائم کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اختر نے زور دیا کہ اگرچہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کو پہلے رکھنا ضروری ہے: "نیک نیتی کا سوال اس سے الگ ہے۔"

معاشی اثرات اور مقامی قیمتیں

ہلشا، جسے سائنسی طور پر *Tenualosa ilisha* کہا جاتا ہے، نہ صرف بنگلہ دیش کی قومی مچھلی ہے بلکہ اس کی معیشت کا ایک اہم حصہ بھی ہے، جو ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً 1 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ یہ مچھلی بنگلہ دیش کی کل مچھلی کی پیداوار کا تقریباً 12 فیصد بنتی ہے، جہاں ماہی گیر سالانہ تقریباً 600,000 ٹن ہلشا پکڑتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں، حکومت نے درگا پوجا کے دوران 3,000 سے 5,000 ٹن ہلشا کی برآمد کی اجازت دی تھی، لیکن اس سال، مقامی قلت کے خدشات کی وجہ سے برآمدی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

پابندی کے باوجود، مقامی مارکیٹ میں ہلشا کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 1.5 کلو ہلشا اب تقریباً 1,800 ٹکا (تقریباً 15 ڈالر) میں فروخت ہو رہی ہے، جو پچھلے سال کی نسبت کافی زیادہ ہے۔ ماہی گیر اس قیمت میں اضافے کی وجہ کم شکار اور خراب موسمی حالات کو قرار دے رہے ہیں، جس نے ان کی ماہی گیری کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔

ہلشا کی ثقافتی اہمیت

ہلشا دونوں ملکوں، بھارت اور بنگلہ دیش، کے بنگالیوں میں ایک مقدس حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی کمی خاص طور پر تہوار کے موسم میں لوگوں کو مایوس کر سکتی ہے۔ یہ مچھلی اپنے منفرد ذائقے اور کھانے کی مختلف ترکیبوں کے لیے جانی جاتی ہے، جیسے سرسوں کے پیسٹ کے ساتھ بھاپ میں پکانا یا مصالحوں کے ساتھ فرائی کرنا۔ بنگالی-امریکی کھانوں کی تاریخ دان چترتا بنرجی نے ہلشا کی تعریف کرتے ہوئے اسے "پانیوں کی شہزادی" اور "مچھلیوں کا شہزادہ" کہا ہے۔

جیسے جیسے درگا پوجا کا تہوار قریب آتا جا رہا ہے، ہلشا کی برآمد پر اس نئی پابندی کے اثرات مغربی بنگال کے لوگوں پر شدید محسوس ہوں گے، جنہیں اپنی پسندیدہ مچھلی حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال مقامی ضروریات اور بین الاقوامی تعلقات کے درمیان نازک توازن کی عکاسی کرتی ہے، خاص طور پر بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے کے ارتقا کے تناظر میں۔

Syed Haider

Syed Haider

BMM - MBA