امریکی سینیٹ نے غزہ تنازع کے دوران اسرائیل کو اسلحے کی فروخت روکنے کی قرارداد مسترد کر دی
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
Loading...
حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کے مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈے، بن گوریون ایئرپورٹ پر مسافروں کی آمد و رفت میں رواں سال کے پہلے نو مہینوں کے دوران 43 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کمی غزہ پٹی پر جاری فوجی کارروائیوں اور لبنانی حزب اللہ کے مزاحمت کاروں کے ساتھ بڑھتی ہوئی جھڑپوں کے باعث ہوئی ہے۔
جاری تنازعہ اور فضائی سفر پر اثرات
2024 کے پہلے نو مہینوں میں بن گوریون ہوائی اڈے پر مسافروں کی تعداد میں 43 فیصد کی کمی آئی ہے، جو کہ اسرائیل کا اہم بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ یہ کمی بنیادی طور پر غزہ میں جاری فوجی آپریشنز اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے ہے۔ اسرائیلی ایئرپورٹس اتھارٹی کے مطابق، ہوائی اڈے نے جنوری سے ستمبر تک 10.85 ملین بین الاقوامی مسافروں کو خدمات فراہم کیں، جو کہ 2023 کے اسی عرصے میں 19.01 ملین مسافروں کے مقابلے میں ایک نمایاں کمی ہے۔
ایئرلائنز کی آپریشنل تبدیلیاں
تنازعہ کی وجہ سے کئی بین الاقوامی ایئرلائنز نے خطے کے لیے اپنی پروازوں کو معطل یا کم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ مسافر اسرائیلی ایئرلائنز کا انتخاب کر رہے ہیں۔ اسرائیلی ایئرلائنز کی جانب سے مسافروں کی تعداد میں 25 فیصد تک اضافہ رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر، ایئرلائنز مسلسل اپنی پروازوں کے شیڈول میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں، سیکیورٹی حالات کے جائزے کی بنیاد پر پروازوں کو معطل اور پھر جلد ہی دوبارہ بحال کر دیتی ہیں۔
یورپی کمیشن اور یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA) نے گزشتہ ماہ کے آخر میں ایک بیان جاری کیا جس میں تجویز دی گئی کہ تجارتی طیارے لبنانی فضائی حدود اور اسرائیلی زیر قبضہ فلسطینی علاقوں کے اوپر سے پرواز سے گریز کریں۔ اس انتباہ کے بعد کئی ایئرلائنز نے دونوں علاقوں کے لیے پروازیں معطل کر دی ہیں۔ اہم یورپی ایئرلائنز، بشمول لفتھانسا گروپ، KLM، اور ورجن اٹلانٹک—جو حال ہی میں تل ابیب کے لیے پروازیں دوبارہ شروع کر چکی تھیں—نے دوبارہ اپنی خدمات معطل کر دی ہیں۔
طویل فضائی راستے اور آپریشنل چیلنجز
موجودہ سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے خطے میں کام کرنے والی ایئرلائنز کو اب طویل فضائی راستے اپنانے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ کئی ایئرلائنز نے مصری اور سعودی فضائی حدود کا استعمال شروع کر دیا ہے تاکہ ممکنہ تنازعہ والے علاقوں سے بچا جا سکے، جس کی وجہ سے روایتی پروازوں کے راستوں میں نمایاں تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلی نہ صرف آپریشنل کارکردگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ مسافروں کے سفر کے وقت میں بھی اضافہ کرتی ہے، جس سے ایئرلائنز اور مسافروں دونوں کے لیے چیلنجز مزید بڑھ جاتے ہیں۔
غیر ملکی سیاحت میں زبردست کمی
اس تنازعے کے سفری اثرات کو مزید اجاگر کرتے ہوئے، اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی زیر قبضہ علاقوں کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں 73.2 فیصد کی زبردست کمی ہوئی ہے۔ یہ تعداد 2023 کے پہلے نو مہینوں میں 2.83 ملین سیاحوں سے کم ہو کر رواں سال کے اسی عرصے میں صرف 757,100 رہ گئی ہے۔ یہ کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جاری تنازعے کے وسیع تر معاشی اثرات خطے میں سیاحت پر کس حد تک مرتب ہو رہے ہیں۔
مستقبل کا منظر نامہ
مسافروں کی آمد و رفت اور سیاحت میں بڑی کمی اسرائیل کی ایوی ایشن اور سیاحت کے شعبوں کے لیے ایک مشکل دور کی نشاندہی کرتی ہے۔ جب تک تنازعہ حل نہیں ہوتا، سفر میں مزید کمی کا امکان موجود ہے۔ ایئرلائنز کو سیکیورٹی ایڈوائزریوں، تبدیل ہوتے ہوئے سفری رجحانات اور صارفین کی ترجیحات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔ اگرچہ اسرائیلی ایئرلائنز مسافروں کی تعداد میں عارضی اضافہ دیکھ سکتی ہیں، لیکن طویل مدتی اثرات ابھی تک غیر یقینی ہیں۔
اختتام میں، جاری فوجی کارروائیاں اور علاقائی کشیدگیاں اسرائیل میں فضائی سفر کے منظر نامے کو تشکیل دے رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ایئرلائنز اور سیاحت کے شعبوں پر نمایاں اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
Editor
سینیٹر برنی سینڈرز کی قیادت میں پیش کی گئی قرارداد ناکام رہی، لیکن فلسطینی حقوق کی تحریک کے لیے اسے ایک پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر پیوٹن کی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی حد میں کمی پر مغرب کی تنقید
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب جو بائیڈن امریکی دفتر میں اپنے آخری مہینوں میں جا رہے ہیں، جانشین ڈونلڈ ٹرمپ روس کے لیے زیادہ سازگار سمجھے جاتے ہیں۔