Loading...

  • 24 Dec, 2024

ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج

ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ نتائج

عراق کی حالیہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے

ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے اسرائیلی فوجی کارروائی کے امکانات کو ہوا دی ہے، خاص طور پر ایران کی جانب سے یکم اکتوبر 2024 کو اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد۔ اس حملے میں حزب اللہ اور حماس کے اہم رہنماؤں کی ہلاکتیں بھی شامل تھیں، جس کے بعد اسرائیل کی جوابی کارروائی پر بحث زور پکڑ گئی۔ اس دوران کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری یا تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ان اقدامات کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے، لیکن اس نے اسرائیل کو ایران کی ممکنہ جوابی کارروائی سے بچانے کے لیے ایک جدید دفاعی نظام (THAAD) تعینات کر دیا ہے۔

دوسری طرف، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادی، خاص طور پر جیرڈ کشنر، اسرائیل کو فوری طور پر ایران کے جوہری پروگرام پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ تاہم، اس مؤقف میں 1981 میں عراق کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے سبق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، جب اسرائیل نے عراق کے اوسیرک نیوکلیئر ری ایکٹر پر بمباری کی تھی۔ اس حملے نے عراق کے جوہری عزائم کو ختم کرنے کے بجائے، صدام حسین کے عزم کو مزید تقویت دی کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ترقی دیں۔ اس واقعے نے یہ ثابت کیا کہ جارحانہ کارروائیاں بعض اوقات الٹا اثر ڈال سکتی ہیں۔

1981 کا اوسیرک حملہ: ایک سبق آموز مثال

عراق نے 1960 کی دہائی میں سوویت یونین کی مدد سے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا تھا، جس کے بعد 1970 کی دہائی میں فرانس کی مدد سے ایک ری ایکٹر بنایا گیا۔ اگرچہ عراق جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا دستخط کنندہ تھا اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے باقاعدہ معائنے بھی ہو رہے تھے، اسرائیل نے اسے جوہری ہتھیاروں کے قریب ہونے کا الزام لگایا۔ داخلی دباؤ اور آنے والے انتخابات کے پیش نظر، اسرائیلی وزیر اعظم میناخم بیگن نے پیشگی حملے کا فیصلہ کیا۔

7 جون 1981 کو اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے اوسیرک ری ایکٹر کو تباہ کر دیا، جس میں تین عراقی شہری اور ایک فرانسیسی انجینئر ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ وقتی طور پر اسرائیل میں قوم پرستی کی لہریں پیدا کرنے میں کامیاب رہا، لیکن عراق کے جوہری منصوبوں کو روکنے میں ناکام رہا۔ اس کے برعکس، اس نے عراقی سائنسدانوں کو اپنے ملک کی جوہری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی ترغیب دی۔ عراقی جوہری سائنسدان جعفر ضیا جعفر کے بقول، "بہت سے سائنسدان اسرائیل کے جوہری غلبے کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم تھے۔"

اس حملے کے بعد، عراق نے خفیہ طور پر اپنے جوہری منصوبے کو آگے بڑھایا اور جوہری طاقتوں جیسے پاکستان سے مدد لینے کی کوشش کی۔ یہ کوششیں صرف 1990 کی دہائی میں خلیجی جنگ اور بین الاقوامی پابندیوں کے ذریعے روکی جا سکیں۔

ایران کی موجودہ جوہری صورتحال

آج کے ایران میں صورتحال اسی مثال سے ملتی جلتی ہے۔ ایرانی جوہری سائنسدانوں کے ہدفی قتل کے بعد، جن میں 2020 میں محسن فخری زادہ کا قتل بھی شامل ہے، ایران میں "جوہری قوم پرستی" کا رجحان بڑھا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر حملوں نے ایرانی عوام کے درمیان جوہری صلاحیتوں کے حق میں مضبوط عوامی رائے کو فروغ دیا ہے۔ حالیہ جائزوں کے مطابق، 69 فیصد ایرانی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی حمایت کرتے ہیں۔

اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحانہ پالیسی ایرانی حکومت اور عوام کے عزم کو مزید تقویت دیتی ہے کہ وہ اپنے جوہری منصوبے کو جاری رکھیں۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملہ عراق کے اوسیرک حملے جیسا ہی اثر ڈال سکتا ہے، یعنی ایران کا جوہری پروگرام مزید خفیہ ہو جائے گا اور جوہری ہتھیاروں کی ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔

نتیجہ: کشیدگی میں اضافہ کے خطرات

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ایک مشکل سیاسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، اور وہ ممکنہ طور پر وہی غلطی کر سکتے ہیں جو بیگن نے کی تھی۔ ان کی حکومت کی غزہ، لبنان اور ایران کے خلاف کارروائیاں مطلوبہ نتائج فراہم کرنے کے بجائے مشرق وسطیٰ میں مزید نفرت کو جنم دے سکتی ہیں۔ عراق کے جوہری تجربے سے ملنے والا سبق واضح ہے: فوجی حملے دشمنوں کے عزم کو مضبوط کر سکتے ہیں اور انہیں انہی ہتھیاروں کے قریب لے جا سکتے ہیں جنہیں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔