ایران کا اسرائیلی جارحیت کے خلاف غیر متزلزل موقف: ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاست کا منظرنامہ
بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ مسلم دنیا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آخری گڑھ ہے۔
Loading...
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے امریکی کوششیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ اسرائیل نے محصور علاقے میں لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
مختلف راستے: امریکی خوش بینی بمقابلہ اسرائیلی عسکری عزم
حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کی اسرائیلی افواج کے ہاتھوں ہلاکت کا اعلان ہوتے ہی امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے مختلف ردعمل سامنے آئے۔ امریکی حکام، بشمول قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، نے اس واقعے کو غزہ کی بحالی کے لیے ممکنہ "نئے دور" کے طور پر پیش کیا۔ تاہم، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس امید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور اسرائیل غزہ میں اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھے گا۔ یہ اختلاف غزہ کے مستقبل پر ایک بنیادی عدم اتفاق کو ظاہر کرتا ہے۔
جنگ کے بعد کے حالات کا چیلنج
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے غزہ میں ایک نئے دور کی امیدیں غیر حقیقی ہیں کیونکہ اسرائیل کی طرف سے اپنی عسکری کارروائیاں جاری رکھنے کا پختہ عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ جغرافیائی سیاسی امور کے ماہر ایچ اے ہیلیئر نے جنگ کے بعد کے کسی نئے دور کو ناقابل عمل قرار دیا ہے اور کہا کہ اسرائیل غزہ یا مقبوضہ علاقوں سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور دیگر علاقوں میں جاری فوجی کارروائیاں امن اور سیاسی حل کے امکانات کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
جنگ بندی کی راہ میں مشکلات
اگرچہ امریکہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کو امن کی راہ میں رکاوٹ ہٹانے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن جنگ بندی کا راستہ پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ حماس کی جنگ بندی کے لیے آمادگی کے باوجود، نیتن یاہو کی جانب سے حماس پر مکمل فتح کی ضد بڑے چیلنجز کھڑے کر رہی ہے۔ ماہرین، جیسے کہ میٹ ڈس، کا کہنا ہے کہ حقیقی پیش رفت کے لیے امریکہ کو اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا اور ایک پائیدار مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، جو بائیڈن انتظامیہ ابھی تک کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انسانی بحران: زمینی حقائق
غزہ میں انسانی بحران مستقبل کے چیلنجز کی ایک سنگین تصویر پیش کرتا ہے۔ ایک سال کی جنگ میں 42,500 سے زائد اموات ہو چکی ہیں اور وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ بنیادی ڈھانچہ، بشمول اسپتال اور گھر، تباہ ہو چکے ہیں اور غزہ کی آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہیں۔ انسانی زندگی اور وسائل پر پڑنے والے تباہ کن اثرات سے جنگ کے بعد فوری بحالی کی امیدوں پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔
انصاف اور احتساب: ایک نامکمل وعدہ
عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی طرف سے ممکنہ جنگی جرائم کے احتساب کے لیے کی جانے والی کوششیں مزاحمت کا شکار ہیں۔ یحییٰ سنوار، نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ جیسے شخصیات کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ طلب کیے گئے ہیں، لیکن آئی سی سی کی تحقیقات کی امریکی مخالفت انصاف کے حصول کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ انسانی حقوق کے وکلاء، جیسے زہا حسن، اس جاری تنازعے کے درمیان احتساب کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
لامتناہی جنگ: اسرائیل کی طویل مدتی حکمت عملی
سیاسی ماہرین، جیسے اوری گولڈ برگ، کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک "ہمیشہ جاری رہنے والی جنگ" کے لیے پرعزم نظر آتا ہے، جس کا کوئی واضح سیاسی منصوبہ یا اختتام نظر نہیں آتا۔ اسرائیل کی طرف سے ایک مخصوص حکمت عملی کی عدم موجودگی اور امریکہ کی کمزور پالیسی اس تشدد کے دائرے کو ہمیشہ کے لیے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اختتام:
امریکہ کی امن کی امیدوں کے باوجود زمینی حقائق، تباہی اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غزہ میں امن کا راستہ طویل اور پیچیدہ ہے۔ جب تک امریکہ اور اسرائیل دونوں کی حکمت عملی میں نمایاں تبدیلی نہیں آتی، غزہ میں دیرپا امن کے امکانات دھندلے ہی رہیں گے۔
Editor
بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ مسلم دنیا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آخری گڑھ ہے۔
عراق کی حالیہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے
تہران اور ماسکو کے درمیان فوجی تعاون سے مغربی طاقتوں کو خوف کیوں؟