امن کی خوش فہمی: امریکہ اور اسرائیل کے غزہ کے مستقبل کے حوالے سے متضاد نظریات
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے امریکی کوششیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ اسرائیل نے محصور علاقے میں لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
Loading...
بہت سے لوگوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ مسلم دنیا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آخری گڑھ ہے۔
مشرق وسطیٰ میں مزاحمت کا آخری قلعہ
ایران مشرق وسطیٰ میں ایک مضبوط قوت کے طور پر جانا جاتا ہے اور اسے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی آخری دیوار سمجھا جاتا ہے۔ اس تاثر کو ایران کی عسکری طاقت اور اس کی اسٹریٹجک خارجہ پالیسی جیسے کہ BRICS+ اتحاد میں شمولیت سے مزید تقویت ملتی ہے۔ یہ رکنیت ایران کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر سکتی ہے، جس سے مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ کشیدگی بڑھنے کے امکانات ہیں۔
کشیدگی میں اضافہ: حالیہ اسرائیلی حملے
حالیہ اسرائیلی حملے میں ایرانی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں چار ایرانی فوجی اور ایک شہری جاں بحق ہوئے۔ یہ حملہ ایران کی جانب سے رواں سال اسرائیل پر کیے گئے میزائل حملوں کا ردعمل سمجھا جا رہا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات صرف عسکری اہداف کو نشانہ بنانے تک محدود تھے، اور اس نے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔ ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے واضح کیا کہ ایران جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اسرائیلی جارحیت کا مناسب جواب دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔
اسٹریٹجک اتحاد اور اقتصادی چیلنجز
ایران کی BRICS+ بلاک میں شمولیت اس کی عالمی تنہائی کو ختم کرنے کی وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔ روس کے ساتھ عسکری اور چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنا کر ایران خطے کی سیکورٹی کا نقشہ بدلنے کا خواہاں ہے۔ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کو تقریباً 1 ٹریلین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، لیکن ایران اپنی مزاحمتی پالیسی پر قائم ہے۔ چین کے ساتھ 25 سالہ اسٹریٹجک تعاون کا معاہدہ اس کی معیشت کو مستحکم کرنے اور مغربی ممالک پر انحصار کم کرنے کی کوششوں کی ایک مثال ہے۔
مزاحمت کے اخلاقی اور سیاسی جواز
ایران کی مزاحمت اس کے اخلاقی اور سیاسی موقف سے جڑی ہوئی ہے۔ سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ایک عوامی خطاب میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایرانی عزم کو دہرایا اور عرب دنیا پر زور دیا کہ وہ اس جارح دشمن کے خلاف اپنی کوششیں تیز کریں۔ ایرانی قیادت فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے اپنے کردار کو ایک مظلوم کے محافظ کے طور پر دیکھتی ہے اور اسرائیلی توسیع پسندی کو خطے کے لیے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔
تاریخی پس منظر اور بدلتے اتحاد
ایران کی موجودہ اسرائیل مخالف پالیسی 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد وجود میں آئی۔ اس سے قبل، پہلوی دور حکومت میں، ایران اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات قائم تھے جو مغربی اتحاد کی وجہ سے تھے۔ 1970 کی دہائی میں یوم کپور جنگ کے دوران ایران کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی نے انقلاب کے بعد کی پالیسی کے لیے بنیاد فراہم کی۔
اختتامیہ: مزاحمت کی آواز
آج کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں ایران اسرائیلی پالیسیوں کا سب سے نمایاں مخالف ہے۔ اس کی مزاحمت نہ صرف قومی وقار کا معاملہ ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی اور مغربی اثر و رسوخ کے خلاف ایک اسٹریٹجک ضرورت بھی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی چیلنجز کے باوجود ایران کی یہ ثابت قدمی پورے خطے میں گونج رہی ہے، جو اسے مسلم دنیا میں طاقت اور اثر و رسوخ کی جدوجہد میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کرتی ہے۔
Editor
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ کے بعد کے مرحلے کے لیے امریکی کوششیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں کیونکہ اسرائیل نے محصور علاقے میں لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
عراق کی حالیہ تاریخ سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے
تہران اور ماسکو کے درمیان فوجی تعاون سے مغربی طاقتوں کو خوف کیوں؟